بگن کا المیہ: اہل سنت کے خلاف دہشت گرد تنظیموں کی سنگین خلاف ورزی

22 نومبر 2024 کی رات، ضلع کرم ایجنسی کے گاؤں بگن میں ایک المناک واقعہ پیش آیا۔ کالعدم دہشت گرد تنظیم کے مسلح کارندوں نے اہل سنت آبادی پر حملہ کر دیا، جس کے نتیجے میں متعدد معصوم سنی شہید ہوئے، بازار کو نذرِ آتش کیا گیا، اور دکانیں لوٹ لی گئیں۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں جب دہشت گردکی طرف سے اہل سنت کو نشانہ بنایا گیا ہو، لیکن اس بار ظلم کی انتہا کر دی گئی۔ المیہ یہ ہے کہ جب اہل سنت پر ظلم ہوتا ہے تو میڈیا خاموش رہتا ہے، لیکن جب دہشت گرداپنی من گھڑت کہانیاں پیش کرتے ہیں تو حکومت فوری طور پر ان کی “فریاد” سننے کو تیار ہو جاتی ہے۔

کیا اہل سنت واقعی پرامن ہیں؟

اہل سنت ہمیشہ سے امن کی علمبردار رہے ہیں۔ ہم کسی سے جنگ نہیں چاہتے، نہ کسی کے حقوق غصب کرتے ہیں۔ لیکن ہمارا صبر اکثر ہمارے خلاف استعمال ہوتا ہے۔ دشمن ہمارے تحمل کو کمزوری سمجھتا ہے اور بار بار ہماری طرف ظلم کی انتہا کرتا ہے۔ بگن کا واقعہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ دہشت گردتنظیمیں کس طرح منظم طریقے سے اہل سنت کو نشانہ بنا رہی ہیں۔

دوہرا معیار: میڈیا اور حکومت کی خاموشی

جب دہشت گرد پر کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو میڈیا اور حکومت فوری طور پر ایکشن لیتی ہے۔ لیکن جب اہل سنت کے قتل عام ہوتے ہیں تو سب خاموش ہو جاتے ہیں۔ کیا یہ دوہرا معیار نہیں؟ کیا اہل سنت کے جان و مال کی کوئی اہمیت نہیں؟ بگن کے بعد دہشت گردنے میڈیا پر اپنی کہانی گھڑ کر پیش کی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہی ظالم تھے۔

مستقبل کا خدشہ: کیا اہل سنت محفوظ ہیں؟

اگر حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اہل سنت کے تحفظ کے لیے سنجیدہ نہیں ہوں گے تو آنے والے وقتوں میں ایسے واقعات بڑھ سکتے ہیں۔ ہمیں اپنی حفاظت کے لیے اجتماعی آواز بلند کرنی ہوگی۔ بین المذاہب ہم آہنگی کا نعرہ تب تک بے معنی ہے جب تک ایک گروہ دوسرے کو نیست و نابود کرنے پر تلا ہوا ہو۔

بگن کے شہداء کو انصاف دلانا ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ دہشت گردتنظیموں کے خلاف فوری کارروائی کرے۔ اہل سنت کو بھی اپنے حقوق کے لیے متحد ہو کر آواز اٹھانی چاہیے۔ ہم امن چاہتے ہیں، لیکن امن کبھی یک طرفہ نہیں ہو سکتا۔

تحریر:صابرشاہ اورکزئی